Featured

گھر بسانے کے اصول

گھر بسانے کے اصول میری پہلی مختصر کتاب ہے۔ یہ کتاب میں نے ان نکات کی طرف توجہ دلانے کے لیے لکھی ہے جو ہمارے ہاں ازدواجی تعلقات میں عرصہ دراز سے نظر انداز کیے جا رہے ہیں اور جن کی روشنی میں اپنی سوچ اور رویے تبدیل کرنے سے اس لطیف رشتے کو کامیاب اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے قارئین کو پورا اختیار ہے کہ کام کی بات پاس رکھیں اور ناکام کو دیوار پر دے ماریں۔

cover - gbka

Featured

میری جُستجو ہے وُہی سفر – طیّبہ خلیل

“میری جُستجو ہے وُہی سفر” میری اُردو شاعری کے پہلے مجموعے کا نام ہے جو میں ایک عرصہ دراز سے قارئین تک پہنچانا چاہتی تھی۔ آج اس کام کا وقت اور موقع ملا تو یہ مجموعہ آن لائن پبلش کر رہی ہوں۔

Featured

Let me tread on the path of Love

Though, Urdu is my main medium of expression for poetry; but some poems only came to me in English. For me, poetry is truth dwelling in beauty and a poet is like a nightingale who sits in darkness and sings to cheer its own solitude with sweet sounds. “Let me tread on the path of Love” is a short collection of my English poems, which may keep on expanding whenever and wherever inspiration strikes again.

تمھاری منزل یہیں کہیں ہے

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب میں کوئین میری اسکول میں نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ میں نے سن رکھا تھا کہ شاعری کرنا بے کارکام ہے اور شاعر حقیقت کی بجائے من گھڑت خیالات اور جذبات کو الفاظ میں پروتے ہیں اور زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں۔ کچھ ایسا مفہوم میں نے سورہ الشعراء کی اختتامی آیات میں پڑھ رکھا تھا۔ جن کا مفہوم کچھ یوں ہے۔
رہے شعراء، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں ۔اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ۔

اسی وجہ سے میں سوچنے لگی کہ یہ تو ایک بے کار مشغلہ ہے۔ لیکن ایک دن میں نے بچوں کے رسالے ماہنامہ پھول جو ہمارے گھر آیا کرتا تھا ایک نظم پڑھی جس کا نام تھا “تمھاری منزل یہیں کہیں ہے”۔ اس نظم کا کیا پڑھنا تھا کہ آنسو لگاتار میری آنکھوں سے گرنے لگے، مجھے ایسا لگا کہ یہ نظم میرے ہی لیے لکھی گئی ہے۔ اسی دن میں نے اس نظم کو اتنی دفعہ پڑھا کہ مجھے اسی دن وہ ازبر ہو گئی۔ اور وہ دن اور آج کا دن اس کا ایک لفظ بھی مجھے نہیں بھولا۔ باِذن اللہ۔ اس کے بعد آج تک میں نے جو بھی شعر و شاعری اردو یا انگریزی میں لکھی اسی نظم کے معیار کو نظر میں رکھتے ہوئے لکھی۔ اس نظم نے مجھے عزم دیا کہ تاریکیاں مٹانے میں مجھے اپنے حِصّے کی شمع جلانی ہے، اسی وجہ سے مجھے تعلیم حاصل کرنی ہے اور اسی مقصد سے ہی مجھے زندگی میں آگے بڑھنا ہے۔
بعد میں مجھے ایک حدیثِ رسول ﷺ   کا بھی پتہ چلا جس کا مفہوم یہ ہے کہ بعض شعر حق ہوتے ہیں یعنی کہ وہ سچّے جذبات پر مبنی ہوتے ہیں۔ مجھے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہہ کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ وہ پیارے نبی ﷺ   اور اسلام کے دفاع اور مسلمانوں کا جوش و ولولہ بڑھانے کے لیے شعرلکھا کرتے تھے۔ اور پھر سورہ الشعراء کی اگلی ہی آیت بھی تو یہ کہہ رہی ہے کہ بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا“ یعنی کہ وہ لغوباتیں کہنے والے شعراء کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔
پیارے ساتھیو، یہی وہ نظم ہے جس نے میرے اندر کا سچا شاعر جگا دیا۔ میں اس نظم کے لکھاری کا صرف نام ہی جانتی ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس نظم کا وزن بہت زیادہ ہو گا۔ ان شاء اللہ

طیّبہ خلیل
بحرین

اِکی گائی

 اِکی گائی جاپانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے “جینے کی وجہ”   یا زندگی کا وہ مقصد جس کے لیے آپ ہر صبح بستر سے اٹھنے کے لیے پر جوش ہوں۔ یہ جاپان کے ایک جزیرے   اوکی ناوا میں رہنے والے باشندوں کا ایک بھر پور صحت مند زندگی گزارنے کا فارمولا ہے ۔ اوکی ناوا کُرہ ارضی کے ان پانچ علاقوں میں شامل ہے جو کہ بلیوزون قرار دیے گئے ہیں۔ بلیوزون علاقوں  کے باشندے باقی دنیا کے لوگوں سے زیادہ لمبی ،بھرپور اور خوشگوار زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں پر ۱۰۰ سال سے اوپر زندگی گزارنے والوں کی تعداددنیا بھر میں  سب سے زیادہ ہے۔ مردوں کی اوسط عمر ۸۴  سال اورخواتین کی اوسط عمر ۹۰ سال ہے ۔ مزید براں ا س علاقے کے  بوڑھے ترین افراد بھی جسمانی ، جذباتی  اور عقلی  لحاظ سے فعال اور خودمختار ہوتے ہیں۔

محققین نے بعد از تحقیق یہ  اندازہ لگایا ہے کہ اوکی ناوا کے لوگوں کی  صحت مند زندگی کی وجہ ان کی خوراک ،  فطرت کے قریب وقت گزاری او ر سب ٹراپیکل کلائمیٹ ہے۔ البتہ ان کی زندگی  کو محرک اور فعال بنانے کی وجہ    اِکی گائی ہے جو کہ ہر شخص کے  عقا ئد ، اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کا اپناذاتی  منفرد نصب العین ہے ۔ ہر شخص کا  اِکی گائی اس کی اندرونی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے  جو کہ اس کو ایسی ذہنی کیفیت میں لے آتا ہے جس کی وجہ سے اس کا ہر فعل  آسانی سے ادا ہوتا ہے اور اسے اپنا کام سہل اور خوشگوار لگنے لگتا ہے۔ اس  مقصد کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے اس کے لیے ذیل میں دیے گئے چار سوالات   کے جوابات آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔

ہ ـ۔ آپ کو کس کام سے محبت ہے؟ کس کام کو کرنے کا آپ شوق رکھتے ہیں  اورجس کو کرنے کے دوران آپ کو وقت گزرنے  کا احساس ہی نہیں ہوتا۔

ہ ـ۔ کس کام میں آپ مہارت رکھتے ہیں ؟ ایسے کام جن کی صلاحیت آپ میں فطری طور پر پائی جاتی ہے۔

ہ ـ۔  آپ ایسا کیا کام کر سکتے ہیں جس کی دنیا کو ضرورت ہے؟  یعنی کہ ایسا پیشہ اختیار کیا جائے جس کی معاشرے  کو ضرورت بھی ہو۔

ہ ـ۔ اور کون سا ایسا کام ہے جس سے آپ پیسا کما سکتے ہیں؟  آپ کوئی ایسا پیشہ اختیار کریں جس کا آپ کو مناسب معاوضہ بھی ملتا رہے ورنہ آپ معاشی طور پر کمزور رہ جائیں گےاور اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کے محتاج ہوں گے۔

مختصراً یہ کہ آپ کو اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرنے کے لیے ان چار سوالات کے جوابات کا یکساں ہونا ضروری ہے تب ہی  آپ ایک بہاؤ  کی کیفیت پا سکتے ہیں جس میں آپ  کے افعال آپ سے آسانی سے ادا بھی ہوں ، آپ کو وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہو اور آپ بوریت کا شکار بھی نہ ہوں۔ ایسا کام ہی آپ کا اِکی گائی ہو گا۔ جینے کی وہ وجہ جس کے لیے آپ صبح اٹھنا  چاہیں گے۔

اس کے علاوہ ذیل میں دیے گئے جاپانی حکمت کے دس اصول ہیں جن کی بدولت  اوکی ناوا کے لوگ  ایک لمبی صحت مند اور خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔

ہ ـ۔ ہر عمر میں فعال رہیں۔ ریٹائرمینٹ کےبعد بھی ریٹائر نہ ہوں۔ بامقصد کام، معاشرے کی خدمت، دوسرے لوگوں کی مدد کرنا جاری رکھیں ۔

ہ ـ۔ زندگی کو تیز گام گزارنے کی بجائے رفتار کم رکھیں ۔ایک مشہور مقولہ ہے کہ “آہستہ چل کر آپ زیادہ دور تک جا سکتے ہیں” ۔ اس لیے افراتفری میں وقت مت گزاریں بلکہ ہر کام کو وقت دیں اور اسے انجوائے کریں۔

ہ ـ۔ کھانا بھوک رکھ کر کھائیں۔ معدے کو ۸۰ فی صد سے زیادہ نہ بھریں۔

ہ ـ۔ خواہ  دو چار ہی ہوں ایسے دوست ضرور بنائیں جن کی صحبت آپ کو تروتازہ کر دے۔

ہ ـ۔ خود کو حرکت میں رکھیں ۔ جیسا کہ پانی اگر بہنا بند ہو جائے تو وہ تعفن زدہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر  جسمانی ورزش نہ کی جائےتو اس کا بھی جسم پر اچھا اثر نہیں ہوتا۔  ورزش کرنا ایسے ہارمون ریلیز کرتا ہے  جو خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔

ہ ـ۔ اپنے چہرے پر زیادہ سے زیادہ مسکراہٹ سجائے رکھیں ۔ایسا کرنا آپ کو دوست بنانے میں مددگار بھی ثابت ہو  گا  اور آپ کی خوشی کا باعث بھی ہوگا۔

ہ ـ۔  اپنی بیٹری کو ری چارج کرنے کے لیے نیچر کے ساتھ تعلق استوار رکھیں۔

ہ ـ۔ شکر گزاری کی زندگی گزاریں۔ اپنی تمام نعمتوں کا شکر ادا کریں۔

ہ ـ۔ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں  اور مستقبل کے خوف سے اپنے آپ کو آزاد کر کے حال اور موجودہ لمحے میں زندگی گزارنا سیکھیں۔

ہ ـ۔ اپنی اِکی گائی کو تلاش کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔

نوٹ : یہ تحریر اکی گائی نامی کتاب کا مختصر خلاصہ ہے۔

طیبہ خلیل۔ بحرین

لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ

قرآن کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تنگی اور عسرت سے نکل کر فراوانی اور یُسر کی طرف جانے کا نسخہ ۳ لفظوں؛ (اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا) میں سمو دیا ہے

قرآن میں شکر کے الفاظ والی آیات کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ 69 آیتوں میں 75 دفعہ شکر کے الفاظ جن مطالب کے ساتھ آئے ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

تاکہ تم شکر کرو
اللہ کا شکر ادا کرو اور کفر نہ کرو
اور لوگوں میں سے اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کرتا ہے اور اللہ تو غنی اور کریم ہے
اور اللہ بہت مشکور (قدر دان) ہے
کہ وہ آزمائے کہ انسان شکر کرتا ہے یا کفر
اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آو تو اللہ تعالی کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں عذاب دیں

یہاں پر سوال کھڑا ہوتا ہے کہ شکر کیا ہے ؟ میرے ناقص علم کے مطابق شکر اس بات کا دل سے اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس حال میں رکھا ہوا ہے وہی میرے لیے بہترین ہے۔ اس سے کچھ بہتر ہونا اللہ کے علم کے مطابق ممکن ہی نہیں تھا۔ جو رزق بھی مجھے مل رہا ہے اور جن حالات سے میں گزر رہا یا رہی ہوں یہی میرے حق میں بہتر ہیں۔ یعنی کہ دل کا اللہ کی رضا پر راضی ہونا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہوا فضل اور نعمتوں کا کھلی آنکھوں سے ادراک حاصل ہونا اور اس کا اقرار دل اور زبان دونوں سے ادا کرنا۔

اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کا کتنا شکر ادا کرتے ہیں تو یہ دیکھ لیں کہ آپ کے دل میں اور زبان پر کتنا شکوہ آتا ہے؟ شکر میں ڈوبا ہوا انسان کبھی بھی شکوہ نہیں کر سکتا۔ اگر انسان یہ سمجھ لے کہ لوگ تو اس کے حق میں نفع یا نقصان کا ذرہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتے تو وہ ان کو اپنی تکلیفیں یا درد بتانے سے باز آجائے۔ اورجب وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تقدیر پر راضی و شاکی رہنا سیکھ لے تو اس کی طبیعت میں مایوسی، غم اور سینے میں تنگی کی بجائے ایک امید، خوشی اور ہلکا پن آجائے ۔ آپ ایک مثال سے سمجھیں کہ کبھی آپ کو ایسے شخص سے ملنا پڑا ہو جس کے پاس شکووں کی پٹاری ہو تو آپ کو اس کی صحبت میں رہنا کیسا لگا ؟ یہ ایک عام تجربہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسے انسان کی صحبت میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ ایسا انسان کسی کو بھی کچھ نفع نہیں پہنچا سکتا۔ وہ خود اپنا بھلا نہیں کر رہا تو وہ دوسروں کا کیا بھلا کرے گا۔ اگر آپ ایک کارآمد انسان بننا چاہتے ہیں تو لازماً آپ کو ناشکری ترک کرنا ہو گی۔

یہ دنیا اسی آزمائش کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ انسان شکر کرتا ہے یا کفر ۔ یہی مفہوم آیاتِ قرآنی سے ہمیں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں کا شکر ادا کرنے کو کہا ہے ان میں حلال رزق ملنے پر شکر، زمین میں معاش کے ذرائع پیدا کرنے پر شکر،دین میں آسانیاں پیدا کرنے پر شکر، اللہ کی طرف سے مدد ملنے پر شکر، ، پھلوں کا رزق ملنے پر شکر، انسان کو سماعت، بصارت اور دل کی حسّیات ملنے پر شکر،رات کو باعث آرام بنانے پر شکر، ہدایت کی نعمت پر شکر، اللہ کے فضل پر شکر ، لوگوں کے کیے گئے احسانات پر شکر شامل ہیں۔ غرض یہ کہ زندگی کا ہر لمحہ مقام شکر ہو۔ کسی دانا کا قول ہے کہ مقامِ شکوہ اصل میں مقامِ شکر ہوتا ہے۔

آخرمیں ایک صحیح حدیث کا ذکر کرتی چلوں جس کا مفہوم ہے کہ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا کیا شکر ادا کرے گا۔ مزید براں قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ لوگوں کے کیے گئے فضل کو بھی یاد رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دن پھرنے پر وہ ذہن سے محو ہو جائے۔اس لیے ضروری ہے کہ جس انسان سے بھی آپ کو چھوٹے سے چھوٹا نفع بھی پہنچا ہو اس کا شکریہ ادا کرنے کی عادت اپنا لی جائے اور اس کام کو ہلکا نہ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتے تو خود اپنی ناشکری پر کتنا ناراض ہوتے ہوں گے۔ اس لیے اللہ کی ناراضی سے بچنے کے لیے اور اپنی نعمتوں کی نشونما کے لیے آج اور اس موجودہ لمحے سے ہی شکر کے بیج بونا شروع کر دیں تاکہ کل کودنیا میں بھی آپ کی ذات کا شجر ہرا بھرا رہے اور آخرت میں بھی ایک دائمی فصل آپ کے لیے جنت میں تیار ہو۔

طیّبہ خلیل۔ بحرین

عاجزی کیا ہوتی ہے؟

عاجزی ایک ایسی عبادت ہے جس کی توفیق صرف اللہ کے بہت خاص بندوں کو عطا ہوتی ہے۔  عاجزی خالق کے سامنے ہو تو اطاعت کہلاتی ہے۔ مخلوق کے آگے ہو تو معرفت کہلاتی ہے۔   لوگوں کی ایک کثیر تعداد نماز، روزے، حج، زکوٰۃ جیسی عبادتیں تو کر لیتی ہے مگر عاجزی نام کی بلند ترین عبادت سے بلکل نا شناسا ہی رہتی ہے۔ عاجزی کی ضد انا اورتکبُّرہوتی ہے جو کہ انسان کے نفس میں اپنے برتر ہونے کا احساس عِلّت کی صورت میں پیدا کر دیتی ہے۔ ایسا شخص جو کہ اپنی انا کی بھینٹ چڑھ جائے اس کی اندرونی سلطنت کی  وسعت کم ہوتی جاتی ہے اور اس کی شخصیت ، علم اور خودی کی نشونما  رُک جاتی ہے۔ 

ایک حدیث ﷺکے مفہوم کے مطابق تکبُّر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو اپنے سے نیچا سمجھنا  ، حقارت سے دیکھنا  اور اپنے آپ کو برتر سمجھنا ہے۔

عاجز وہ ہے جو رب کے حضور اور ہر اُس انسان کے سامنے لا اَدرِی (میں نہیں جانتا) کہنے کے لیے تیّار ہو جس کے پاس الحُسنیٰ یعنی احسن بات یا رائے موجود ہو۔

عاجزی وہ طریقت ہے جو کہ اپنی کوشش کرنے کے بعد انسان کو تقدیر کے سامنے سر تسلیم خم کروائے  اور اللہ سے راضی رکھے۔

عاجزی وہ تواضع ہے جو ہر انسان کو عزّت کا مقام دینا جانتی ہو۔ خواہ وہ ایک خاکروب یا گٹر کھولنے والا ہی کیوں نہ ہو۔

عاجزی وہ خاموشی ہے جو انسان کو اپنی قابلیّت اور صلاحیّت کو لوگوں پر ظاہر کرنے سے بے نیازکرتی ہے اور حاضر و موجود شخص کو اپنی سنانے کی بجائے اس کی سننا جانتی ہے۔

عاجزی وہ خوف ہے جو کہ نصیحت کی بات سن کر فوری طور پر  اس پرتوجہ  دلا کرانسان کو اپنے عمل کی اصلاح کی ترغیب دلائے۔

عاجزی وہ پردہ ہے جو کہ انسان  کواپنی نیکیوں پر ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

عاجزی وہ ظرف ہے  جو دوسروں کی محنت اور کوشش پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ ان کی جائز تعریف اور اجرت فوری طور پر ادا کرتا ہے۔

عاجزی اس آگہی کا نام ہے کہ جو بندے کو یہ سبق سکھائے کہ میں پہلے اللہ تعالیٰ کا اور پھر کسی نہ کسی صورت میں انسانوں کا بھی محتاج رہوں گا۔  

عاجزی  وہ چال ہے جو انسان میں گردن کو اکڑا کر چلنے کی بجائے اپنا سر جھکا کر چلنے کی  خُو ڈالے۔

عاجزی وہ ضبط ہے جو کہ جاہل سے  بحث کرنے سے روکے اور اس کو دعا دے کر بحث سے کنارہ کشی اختیار کرنے کو کہے۔

پیارے ساتھیو،  کبِر صرف اللہ تعالیٰ کو ہی زیب دیتا ہے۔ ہمیں اپنے نفوس میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم نے اپنے نفس کو ہی بُت تو نہیں بنا رکھا۔ حدیث ﷺ میں اگر رائی کے دانے کے برابر بھی جس دل میں تکبُّر پایا جائے گا اس کے لیے  جنّت حرام ہونے کی وعید ہے۔ اللہ ہمیں اپنے عاجز بندوں میں شامل کرے۔

طیّبہ خلیل ۔بحرین

عبادت کیا ہے ؟

عبادت کیا ہے ؟ یہ سوال میرے ذہن میں نہ جانے کتنی مدّت سے ہے۔ عبادت سے متعلق متعدد آیات قرٓنِ حکیم میں آئیں ہیں۔  عربی مادہ “ع ب د ” ۲۷۵ دفعہ قرآن میں  ۶ مختلف صورتوں میں آیا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ فعل  عَبَدَ اس نے عبادت کی ۲۔ فعل عبَدّتَ   تم نے غلام بنایا ۳۔ اسم الفاعل عابِدات  عبادت گزار عورتیں۴۔اسم مصدر عبادت  ۵۔ اسم الفاعل عابِد

اللہ تعالیٰ  نے قران میں انسان کی تخلیق کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد  بیا ن کیا ہے  اور وہ اس درج ذیل آیت سے عیاں ہے۔

ہم ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ کے یہ الفاظ دہراتے ہیں۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں

عام طورپر نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ ، سنن  اور نوافل کو ہی عبادت سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تمام مسلمانوں کی عبادت یکساں لگتی ہے۔ مگر اللہ کو اس یکساں عبادت کے علاوہ ہر انسان سے اس کی اپنی مخصوص عبادت بھی چاہیے۔عربی زبان میں عبد کے معنی غلام یا بندہ کے ہیں۔ جیسے نام عبداللہ کا مطلب اللہ کا غلام یا اللہ کا بندہ ہے۔ اس مفہوم سے دیکھا جائے تو ایک ایسے شخص کا تصوّر ذہن میں آتا ہے جو ہر امر میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت کو لازم پکڑےہوئے ہے۔  قرآن میں کثیر مقامات پر کم و بیش یہی عبارت دہرائی گئی ہے کہ تم سب اللہ کی ہی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ بیشتر مقامات میں شرک کی تعریف ہی یہی بیان کی گئی ہے  کہ اللہ کی عبادت میں کسی اور کو ساجھی بنانا یا اللہ کے علاوہ کسی اور کی بندگی اختیار کرنا۔

میں نےجب عبادت کے مفہوم پر غور کرنا شروع کیا تو مجھے معلوم ہواکہ عبادت ہر اس عمل کا نام ہے جس کا اجر یا صلہ اس سے مطلوب ہو جس کی عبادت کی جا رہی ہو۔ اس طرح اللہ کی عبادت کا مفہوم ہوا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کام کے لیے یہی نیّت ہو کہ اس کا   اجر یا صلہ مجھےاللہ کے علاوہ کسی اور سے نہیں چاہیے۔ مجھے عبدیّت کا یہی مطلب سمجھ میں آیا۔ جو کام بھی اللہ سے اجر و صلہ کی بجائے لوگوں یا دنیا  سے نفع حاصل کرنے کی نیّت پر کیا جائے وہ کسی نہ کسی درجے کے شرک یا فسق میں شمار ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے چند اعمال اور ان کی  ممکنہ  نیّتوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ۔ اچھی جاب ، مرتبہ، مال  اور مقام حاصل کرنے کے لیے ۔یا اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کے لیے بااثرمقام حاصل کرنے کی نیّت۔

لوگوں کو تعلیم دینا خواہ قرآن کی ہو یا دنیاوی۔ صرف اس سے رزق کمانے کی نیّت یا پھر اللہ کی خاطر اپنے علم سے لوگوں کو نفع پہنچانے کی نیّت رکھنا۔

کتابیں اور تحریریں لکھنا۔ اس سے لوگوں میں عالم اور قابل سمجھا جاؤں اور نفع کما سکوں یا علم سے متعلق کام کی بات ہی لکھ کر اللہ کی خاطر لوگوں کو نفع پہنچانے کی نیّت رکھنا۔

موسیقی، اداکاری یا ملتا جلتا پیشہ اختیار کرنا۔ اس سے شہرت، مال ، اور پرستارحاصل کرکے  مشہور ہو جاؤں یا پھر اس سے اللہ تعالیٰ کی دنیا میں اپنی صلاحیت کے مطابق لغویات اور فحش کاموں سے بچتے ہوئے  نیک باتیں اور اخلاقیات  اپنے آرٹ کی صورت میں لوگوں تک پہنچاؤں۔

ڈاکٹر کا پیشہ۔  لوگوں کا علاج کر کے خوب مال سمیٹوں یا مخلوقِ خدا کی خدمت کا جذبہ رکھوں۔

پیارے ساتھیو! یہ بات غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبدیّت کی نیّت سے دنیا وی فائدہ بھی حاصل ہوجاتا ہے مگر دنیاوی نیّت رکھنے سے صرف دنیاوی فائدہ ہی حاصل ہو سکتا ہے جبکہ اس کا  آخرت میں کوئی اجر حاصل نہیں ہو گا کہ نبی ﷺ کی حدیث کےمفہوم کے مطابق  بے شک تمام اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے۔

اگر اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم نہیں تو نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ سب اعمال ہی بے کار اور ضائع ہوں گے۔ اس کا کفّارہ صرف اس صورت میں دیا جا سکتا ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنےکے لیے انفرادی اور اجتماعی  جدّوجہد کی جائے  اور کسی نہ کسی سطح کے جہاد اور کوشش میں حِصّہ ڈالا جائے. کیونکہ اللہ کو اپنی پوری زمین میں اپنا نظام ہی سب سے طاقتور اور بااثر چاہیے۔ اگر اس طرح کی کوئی کوشش یا نیّت نہ رکھی جائے تو سب اعمال کسی نہ کسی درجے کے فسق میں شمار ہوں گے۔ بوجہ اس کے کہ سجدہ تو اللہ کو کر رہے ہیں .سامنے اللہ کی بجائے طاغوت تخت سجائے بیٹھا ہے، زکوٰۃ بھلے دے  دیں مگر وہ سودی نظام کا حصہ بن کر اہل لوگوں تک نہیں پہنچ پائے گی، روزہ رکھ لیں مگر اس سے تقویٰ حاصل نہ ہو گا، حج پر چلے جائیں مگر اس سے امّت کو وحدت نصیب نہیں ہو گی۔

نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ  کُلی نہیں بلکہ جُزوی عبادات ہیں۔ ہر انسان کا اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آنے کا  ایک رحمانی مقصد بھی لکھ رکھا ہے اور ایک بھٹکا ہوا طاغوتی مقصد بھی۔ اختیار انسان کے پاس ہے کہ وہ کونسے مقصد کو چنتا ہے ۔ ہر انسان کی سب سے بلند ترین عبادت وہی شمار کی جائے گی جو وہ رحمانی مقصد کے تحت کر رہا ہے۔  اس لیے عبادت کے مفہوم کو عامیانہ مت سمجھیں بلکہ اپنی سب سے عظیم ترین عبادت جو کہ پوری دنیا میں آپ کے علاوہ کوئی اور آپ سے بہتر نہیں کر سکتا اس عبادت کی تلاش کریں۔ اگر سب انسان اپنی عظیم ترین رحمانی عبادت میں اپنے آپ کو مشغول کر لیں تو دنیا میں اللہ کا نظام قائم کرنا کچھ مشکل نہ رہے گا۔

طیبہ خلیل ۔ بحرین

کائنات ہر مخلص باعمل انسان کی مدد کرتی ہے

مشہور مصّنف  undefined  کی مشہور کتاب undefined نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ اس کتاب کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ جب کوئی بھی انسان دل سے کوئی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لیے مخلصانہ کوشش کرتا ہے تو ساری کائنات اس کا مطلوبہ مقصد پورا کرنے کے لیے کام میں جُت جاتی ہے“۔

علّامہ اقبال نے اپنی نظم تصویرِ درد میں اس حقیقت کا کچھ یوں ذکر کیا ہے

یہی آئینِ قدرت ہے یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہ ِعمل میں گامزن محبوبِ فطرت ہے

 کم و بیش یہی فلسفہ مشہور کتاب undefined   میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کی سوچ ہی اس کی زندگی کی حقیقت کا تعین کرتی ہے۔ اور کسی امر کو انجام دینے کے لیے  یا اپنا مطلوبہ مقصد پانے کے لیے شدید خواہش رکھنا اور اس کے بارے میں سوچنا طالب اور مطلوب  کے درمیان مقناطیسی کشش پیدا کرتا ہے۔ مختصراً یہ کہ  آپ اپنی زندگی کا ایک ویژن بنائیں اور اس کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے زندگی میں عمل کے میدان میں پیش قدمی کریں ۔

قرآن میں  یہ عبارت اور مفہوم بیشتر مقاما ت پر دہرایا گیا ہے کہ یہ کائنات انسا ن کے لیے مسخّر کی گئی ہے۔ مسخّر کا مطلب ہوتا  ہے مطیع اور فرمانبردارہونا ، اور سخّر کرنے والے کی مرضی کے مطابق کام پر لگنا۔  قرآن کے مطالعے سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ صرف خواہش دل میں رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اپنے مطلوبہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عمل اور کوشش درکار ہے۔ اگر ہم اپنے مستقبل کے کسی ویژن پر ایمان لے بھی آئیں پھر بھی عمل کے بغیر یہ ایمان ادھورا ہے ۔ اس لیے قرآن میں یہ عبارت  ” الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ” زیادہ تر مقامات پر ایک ساتھ دہرائی گئی ہے۔   اور ایک  جگہ پر قرآن میں درج ہے۔

ایک اور مقام پر قرآن میں آیاہے ۔

اور سورہ الّیل میں اللہ تعالیٰ نے  اللہ کا تقویٰ  اختیار کرنے، اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور ہر امر  میں سب سے احسن بات الحُسنیٰ کی تصدیق کرنے پر آسان طریقے کی سہولت دینے کا وعدہ کیا ہے۔

میں نے ذاتی مشاہدے اور تجربات کی بدولت اس حقیقت کا ادراک حاصل کیا ہے کہ دل میں ایک زندہ آرزو کا ہونا ، اس کے لیے تڑپ پیدا ہونا، اخلاص کی نیّت رکھ کر عمل کیے چلے جانا خواہ وہ کتنا تھوڑا ہی کیوں نہ ہو منزلوں کے راستو ں کو آسان بھی بناتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یقین بھی عطا ہوتا ہے۔ ایک بندہ مومن کے پُختہ یقین میں ناقابلَ تسخیر قوّت ہے اور یقین ایک ایسا جوہر ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور دے ہی نہیں سکتا۔ مایوسی کُفر کے مترادف ہے ؛ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی ذات سے اچھا گمان اور پُختہ یقین اُن اعلیٰ ترین اعمال میں سے ہیں جو کہ کائنات کی طاقتوں کو صاحبِ یقین کا خادم بنا دیتی ہیں۔

پیارے ساتھیو! اگر زندگی میں کوئی عظیم مقصد ہی نہ ہو  تو یہ موت کے مترداف ہے۔   اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر کسی مقصد کی تلاش اور اس میں اپنا آ پ سرگرداں کرنا  ہی دنیاوی زندگی کا اصل مقصود ہے۔ اگر کوئی  اعلیٰ مقصد نظر میں نہ ہو تو یہ زندگی بس صبح و شام کا کھیل ہے کہ کھایا ، پیا، ہضم کیا، سو لیا ، چند ساعتوں کا مزا حاصل کرلیا اور پھر مٹّی تلے جا کر دفن ہو گئے ۔ موت سے پہلے خود بھی جاگ جائیں اور دنیا میں بھیجے جانے کا عظیم مقصد بھی جگا لیں ورنہ موت سے پہلے ہی مرنے کی تیّاری کر لیں۔

طیبہ خلیل – بحرین

انسانوں سے محبّت کریں؛ان کے اعمال کی پڑتال اللہ پر چھوڑ دیں۔

ہم سب انسان؛ ہمارا خُدا ایک ہی خُدا ہے۔  وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ ۔ تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے، اُس رحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے2: 163

اور ابتدا میں ہم ایک ہی امّت تھے۔  كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَة ً  2:213

ہمیں ایک نفس سے پیدا کیاگیا۔يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ ۔ لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا ئے۔قرآن 4:1

ہم سب حضرت آدم اور حوّا علیہ السلام کی اولاد ہیں جو کہ مٹّی سے پیدا کیے گئے۔ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام میں اپنی روح سے پھونکا اوران کوزندگی بخشی اور ہم میں سے ہر انسان میں اللہ کی روح کا جوہر  ہےاور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی عکس سے پیدا کیا ہے۔ہم سب خطاکار ہیں اور ہم سب کے سب کبھی اپنی غلطیوں سے کبھی دوسروں کی غلطیوں سےسیکھنے کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔  ہم میں سے کوئی بھی ایمانی، جسمانی، روحانی اور جذباتی طور پر ایک حالت پر جامد نہیں بلکہ ہر لمحہ تبدیل ہو رہا ہے۔ کبھی ترقّی کی طرف اور کبھی تنزّلی کی طرف۔ ایک حالت سے دوسری حالت تک کا سفرطے کرتا چلا جا رہا ہے۔  ہر انسان کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔ زیادہ تر لوگ صرف ظاہری اعتبار سے جانچتے اور پر کھتے ہیں۔ باطن کی مکمّل صورت صرف ہمارا رب ہی جانتا ہے۔ اور وہ سب سے زیادہ عدل کرنے والی ذات ہی ہر ایک کے عمل کا فیصلہ خود ہی کرے گی۔ اس لیے ہم کسی کی نیّت اور عمل کو پرکھنے کی ذمہ داری نہیں دیے گئے۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے جدا اور منفرد ہے جو کہ بہترین خالق کی تخلیق ہے۔ نہ ہمیں اپنے آپ کو کسی سے بہتر خیال کرنا چاہیے نہ کسی سے کمتر اور نہ ہی ایک دوسرے سے موازنہ کرنا چاہیے۔ ہر ذی روح انسان صرف اس ذمہ داری کا مکلّف ہے جس کی وسعت اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہے۔لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۔2:286

اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے 84:6 ۔ ہم سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں کہ ہم سب اپنے رب کی طرف واپسی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ خواہ کوئی آگے یا پیچھے ہو؛ سب اپنے اپنے راستوں پر اپنی رفتار، توفیق، استطاعت، کوشش، ہدایت اور عقل کے مطابق چلے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی موجودہ لمحے میں ایک کیفیّت، مقام اور امتحان سے گزر رہا ہے جس کو بہت شفیق مہربان رب نے بہترین اور دیرینہ مفاد کے لیے ایک پرفیکٹ تقدیر کی صورت میں ترتیب دیا ہے۔ اور وہ شفیق ربّ ہر ایک سے محبّت رکھتا ہے۔ نفرتیں توصرف ہم انسان ہی اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ ہر شخص محبّت اور عزّت کا حقدارہوتا ہے؛ خواہ اس کا پیشہ جو بھی ہو۔ موسیقی، اداکاری یا کوئی بھی آرٹ وغیرہ؛ اس کی صلاحیّت بھی بہت مہربان ربّ نے ہی اسے دی ہے اوریہ سب پیشے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی وجود میں آئے ہیں۔ نہ زمانے کو برا بھلا کہیں اور نہ ہی کسی انسان سے دل میں کراہیت اور نفرت رکھیں۔ زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالیٰ کو نعوذباللہ برا بھلا کہنے کے مترادف ہے۔ اس مفہوم کی ایک حدیثِ قدسی مستند اور معروف ہے۔ انسانوں سے نفرت کی بجائے خیر خواہی کے جذبات دل میں رکھیں۔ ضروری نہیں کہ جو ہم دوسروں کے لیے اچھا سمجھ رہے ہوں وہ واقعی ان کے حق میں بہتر ہو۔ اس لیےدوسروں کو نصیحت کرنے کا دائرہ کارحکمت کے ساتھ  امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نیّت، کوشش اور صریح شرک اور فحش کاموں سے روکنے تک  ہی محدود رکھیں۔

آج کل بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے کو ایکسیپٹ کرنا سیکھ جائیں۔ ہم اپنی عقل کے مطابق کسی کو جج نہ کریں۔ ہم کسی کو بہت پیار سے سمجھا سکتے ہیں مگر کسی کا دل بدل نہیں سکتے۔ کسی کا ظاہری نظر آنے والا گناہ ہمیں اس کی خیر خواہی اور اس کے لیے بہترین کامیابی یعنی کہ جنّت میں داخل کیے جانے کی خواہش سے روک نہ دے۔ دعوت و تبلیغ کے کام کا مؤثر ترین طریقہ خود اپنے عمل اور کردار کی مثال پیش کرنا ہے۔

جب ہم یہ جان لیں گے کہ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم اکیلے جنّت میں جائیں بلکہ ہماری خواہش یہ ہونی چاہیے کہ سب کے سب نیکوکار انسان جنّت میں ہمارے ساتھ ہوں۔ وہ جنّت جہاں ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کوئی بغض، کوئی نفرت، کوئی حسد کا جذبہ نہیں ہو گا۔اور وہ خواہشات جن کے پیچھے آج ہم ہلکان ہو رہے ہیں ان کا نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ اور آخرکار ہم اپنے رب کے چہرے کے دیدار اور اس سے ملاقات کے بعد کسی بھی طرح کے پست خیال کے بارے میں سوچ ہی کیسے سکیں گے؟ کہ جس ربّ کی تلاش اور اس سے ملاقات کے لیے ہم اس دنیا کے کٹھن سفر سے گزر رہے ہیں۔ کیا جنّت کی کوئی نعمت یا کوئی نفسانی خواہش یا لذّت بھی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے؟

طیبہ خلیل

بحرین

سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُم ۔ دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف

fastabiqu

آج کل دنیا نفسا نفسی،مادیّت پرستی  ، کلاس سسٹم کی تفریق یعنی کہ  امیر غریب کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق حتّیٰ کہ اسکول بھی طبقاتی نظام پر چل رہے ہیں۔ کون ڈگری لے کر اونچا عہدہ حاصل کرتا ہے ۔ کس کے پاس مہنگی گاڑی ہے۔ کس کی بیوی خوبصورت اسمارٹ ہے۔ کس کا شوہر ہینڈسم اور امیر ہے۔ کس کے بچے مہنگے انگریزی اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ گھر بار اور اس کی زیب و آرائش کیسی ہے۔ کون زیادہ کماتا ہے۔ فنکاروں کا موازنہ بھی ان کی مالیاتی قدر کی بنا پر کیا جانے لگا ہے۔ کس کی زیادہ فین فالؤنگ ہے۔ کون زیادہ مشہور ہے۔ غرض یہ کہ آج کا انسان دنیا کی اصل متاع و قیمت سے اندھے پن کا شکار ہے۔ وہ اس چند روزہ فانی دنیا کو اس قدر سطحی قسم کی محصولات کی بنیاد پر اس کی اوقات سے زیادہ اہمیت دیے چلا  جا رہا ہے۔ بغیر یہ سوچے کہ دنیا کے مال و متاع کو حاصل کرنے کی کوشش کتنی بے سود اور حقیر ہے۔ اس مختصر سی زندگی میں وہ کتنے حقیر خواب انکھوں میں سجائے بیٹھا ہے۔ ریٹائرمینٹ کے بعد یورپ کی سیر کو چلا جاؤں۔ زیادہ سے زیادہ جائیداد، زمینیں، سونا اور دنیاوی مال و متاع حاصل کر لوں۔ غرض یہ کہ اس مادیّت پرستی کے دور میں بس یہی کچھ اہم سمجھا جانے لگا ہے۔ اس دوڑ میں مسلمان بھی کسی طور پیچھے نہیں ہیں۔ وہ بھی اس نظامِ دجل میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں ۔

اس کے بر عکس اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو لہو و لعب قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو کوئی اس دنیا کے متاع کا طالب ہوتا ہے اسے ہم دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصّہ نہیں۔ اللہ کے پاس تو آخرت اور دنیا دونوں کا ہی اجر ہے۔ یہ تو طالب پر منحصر ہے کہ وہ طلب کیا کرتا ہے۔   جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیں کس معاملے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کے لیے کہہ رہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے سورہ حدید کی درج ذیل آیات کا  اردو مفہوم ملاحظہ فرمائیں۔

خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے اِس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے دنیا کی زندگی ایک دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔ دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ قرآن 57:20,21

جہاں بھی مسابقت ہوتی ہے تو پھر  نیّت ، کوشش اور کارکردگی کے لحاظ سے درجہ بندی بھی کی جاتی ہے۔ اس آیت پر غور و فکرکرنے سے مجھے احساس ہوا کہ اللہ تعالیٰ تو یہاں کھلا چیلنج دے رہے ہیں سب انسانوں کو کہ آپس میں نیک کاموں کے کرنے کی دوڑ لگاؤ اور پھر میں فیصلہ کروں گا کہ کون اوّل آتا ہے کون دوم اور اور اس کے بعد باقی درجات۔ آج دنیاوی امتحان میں فیل ہونے پر اتنی شرمندگی ہوتی ہے تو سوچیں آخرت کے امتحان میں فیل ہو جانے پر کس قدر ندامت، پشیمانی اور زود رنجی کا سامنا ہوگا اور اس کے نتیجے میں دوزخ کا عذاب الگ۔ اس کے برعکس اللہ کے رستے میں مسابقت کر کے اوّل آنے والے کو کیا عظیم خوشی نصیب ہو گی۔ کیا دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی یا خوشی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

پیارے ساتھیو! اللہ کے نزدیک سب سے بڑا عمل نورِ توحید کو دنیا میں پھیلانا ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی کوشش ہے۔ اللہ کی راہ میں مسابقت کو آپ صرف ظاہری فرائض، سنّتوں اور نوافل سے ہی منصوب نہ کر لیں۔  ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺکے مشن کو اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق نفع اور تقویّت پہنچانا ہی  اللہ کی اصل  مدد کرنا ہے۔  اسی کے لیے کوشش اور عمل درکار ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو چند لوگوں کی مکمّل ظاہری  دین داری سے کیا لینا دینا جبکہ دینِ اسلام کی روح; توحید کی عظمت ، رفعت اور برتری سے ہی غافل رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حکمت کے ساتھ حق بات کو پہچاننے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

طیبہ خلیل

بحرین

سورة العصر ۔ بے شک انسان خسارے میں ہے

alasar

سورة العصر قرآنِ حکیم کی جامع ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ اس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔

عصر کے وقت کی قسم (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے (3

زیادہ تر مفسّرین نے عصر کو زمانے کا مطلب دیا ہے۔ مگر یہ عمومی طور پر زمانے کا مطلب رکھنے کی بجائے ایک خاص زمانے کی طرف اشارہ ہے۔۔ آئیے اس زمانے کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ اگر ہم کہیں کہ اس پوری دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وجود میں آنے سے لے کر قیامت تک صرف ایک دن کا وقت دیا گیا ہے۔ تو فجر کے وقت حضرت آدم ع زمین پر اتارے گئے۔ اور اس کے بعد آنے والے رسولوں اور قوموں کو عصر تک کا وقت دیا گیا۔ اور پھر خود حضرت محمد ﷺ  الیوم الدّنیا میں عصر کے وقت تشریف لائے۔ اس لیے امّتِ محمّدی کو عصر سے مغرب تک کا وقت دیا گیا ہے۔ مغرب کا وقت شروع ہوتے ہی اس دنیا کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو جائے گا اور قیامت برپا کر دی جائے گی۔ مغرب سے عشاء کے وقت تک حساب کتاب ہو گا اور عشاء کے بعد ہر کوئی اپنے اپنے ٹھکانے جنّت یا دوزخ میں یا تو آرام فرمائے گا یا پھر رسوا کن عذاب سے دوچار ہو گا۔

عصر اور مغرب کا وقت اتنا قلیل ہوتا ہے کہ گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔ ہمارے پیارے نبی  نے عصر اور مغرب کے درمیان سونے سے بھی منع فرمایا ہے۔ والعصر؛ اللہ تعالیٰ نے عصر کے زمانے کی قسم کھائی ہے۔ اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے پاس وقت بہت قلیل رہ چکا ہے جو کہ گھڑی کی ہر ٹِک ٹِک کے ساتھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں ہر ایک انسان خسارے میں رہے گا۔ یعنی کہ لوگوں کی کثیر تعداد عمل کے وقت کے اس قدر قلیل ہونے سے غفلت میں رہے گی۔ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انٹرٹینمنٹ، موج مستی، فَن ٹائم، ہلّہ گلّہ زیادہ تر لوگ یہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔  بہت کم لوگ ہی وقت کی شدید کمی کا احساس رکھتے ہوئے عمل کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

ایسے وقت میں سب کے سب لوگ خسارے میں رہیں گے الّا وہ لوگ جو یہ چار کام کرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے۔

١۔ ایمان لائیں گے۔ اللہ پر، اس کے وعدوں پر ،اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر ، اس کی کتابوں پراور روزِ قیامت پر

٢۔ صالح اعمال کرنے کی کوشش اور فکر میں لگے رہیں گے اور عمل سے غفلت کا شکار نہیں ہوں گے۔

٣۔ ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرتے رہیں گے۔ حق بات ہدایت کی ایسی بات کو کہتے ہیں جو سچی ، پر تاثیر اور آسان ہو اور فوری طور پر دل کو نرم کر کے اس پر اپنا اثر ڈالے۔

٤۔ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں گے کہ دیکھو یہ مصائب، پریشانیاں، مشکلات صرف اتنے ہی قلیل عرصے کے لیے ہیں جتنا  عصر سے مغرب تک کا وقت۔ دیکھو اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا۔ وہ زمین میں بھی اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے ہمیں اقتدار دے گا اور اگر ہم وہ وقت نہ بھی دیکھ پائے تو ہماری کوشش اور صبر کا عظیم انعام ہمیں آخرت میں دے گا۔

پیارے ساتھیو! صریح خسارے سے بچنے کے لیے ان میں سے کچھ کام نہیں بلکہ یہ چاروں کام کرنے پڑیں گے تب ہی قیامت کے دن کی ذِلّت اور رسوائی سے بچ سکیں گے۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی ذمہ داری ہم پر ہی ڈالی گئی ہے اس ذمہ داری کو کسی نہ کسی کو تو اٹھانا ہی پڑے گا ورنہ کسی نہ کسی مخلص جماعت میں شامل ہو کر اپنی صلاحیت، قابلیت، استعداد اور استطاعت کے مطابق نورِ توحید پوری دنیا میں پھیلانےمیں اپنا  حِصّہ ڈالنا ہی ہو گا۔ اپنے آپ کو عظیم خسارے سے بچانے کا صرف اور صرف یہی طریقہ ہے۔

اللهمَّ لا تجعلنا مِنَ الخاسِرين

طیبہ خلیل – بحرین