انسانوں سے محبّت کریں؛ان کے اعمال کی پڑتال اللہ پر چھوڑ دیں۔

ہم سب انسان؛ ہمارا خُدا ایک ہی خُدا ہے۔  وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ ۔ تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے، اُس رحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے2: 163

اور ابتدا میں ہم ایک ہی امّت تھے۔  كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَة ً  2:213

ہمیں ایک نفس سے پیدا کیاگیا۔يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ ۔ لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا ئے۔قرآن 4:1

ہم سب حضرت آدم اور حوّا علیہ السلام کی اولاد ہیں جو کہ مٹّی سے پیدا کیے گئے۔ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام میں اپنی روح سے پھونکا اوران کوزندگی بخشی اور ہم میں سے ہر انسان میں اللہ کی روح کا جوہر  ہےاور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی عکس سے پیدا کیا ہے۔ہم سب خطاکار ہیں اور ہم سب کے سب کبھی اپنی غلطیوں سے کبھی دوسروں کی غلطیوں سےسیکھنے کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔  ہم میں سے کوئی بھی ایمانی، جسمانی، روحانی اور جذباتی طور پر ایک حالت پر جامد نہیں بلکہ ہر لمحہ تبدیل ہو رہا ہے۔ کبھی ترقّی کی طرف اور کبھی تنزّلی کی طرف۔ ایک حالت سے دوسری حالت تک کا سفرطے کرتا چلا جا رہا ہے۔  ہر انسان کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔ زیادہ تر لوگ صرف ظاہری اعتبار سے جانچتے اور پر کھتے ہیں۔ باطن کی مکمّل صورت صرف ہمارا رب ہی جانتا ہے۔ اور وہ سب سے زیادہ عدل کرنے والی ذات ہی ہر ایک کے عمل کا فیصلہ خود ہی کرے گی۔ اس لیے ہم کسی کی نیّت اور عمل کو پرکھنے کی ذمہ داری نہیں دیے گئے۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے جدا اور منفرد ہے جو کہ بہترین خالق کی تخلیق ہے۔ نہ ہمیں اپنے آپ کو کسی سے بہتر خیال کرنا چاہیے نہ کسی سے کمتر اور نہ ہی ایک دوسرے سے موازنہ کرنا چاہیے۔ ہر ذی روح انسان صرف اس ذمہ داری کا مکلّف ہے جس کی وسعت اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہے۔لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۔2:286

اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے 84:6 ۔ ہم سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں کہ ہم سب اپنے رب کی طرف واپسی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ خواہ کوئی آگے یا پیچھے ہو؛ سب اپنے اپنے راستوں پر اپنی رفتار، توفیق، استطاعت، کوشش، ہدایت اور عقل کے مطابق چلے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی موجودہ لمحے میں ایک کیفیّت، مقام اور امتحان سے گزر رہا ہے جس کو بہت شفیق مہربان رب نے بہترین اور دیرینہ مفاد کے لیے ایک پرفیکٹ تقدیر کی صورت میں ترتیب دیا ہے۔ اور وہ شفیق ربّ ہر ایک سے محبّت رکھتا ہے۔ نفرتیں توصرف ہم انسان ہی اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ ہر شخص محبّت اور عزّت کا حقدارہوتا ہے؛ خواہ اس کا پیشہ جو بھی ہو۔ موسیقی، اداکاری یا کوئی بھی آرٹ وغیرہ؛ اس کی صلاحیّت بھی بہت مہربان ربّ نے ہی اسے دی ہے اوریہ سب پیشے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی وجود میں آئے ہیں۔ نہ زمانے کو برا بھلا کہیں اور نہ ہی کسی انسان سے دل میں کراہیت اور نفرت رکھیں۔ زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالیٰ کو نعوذباللہ برا بھلا کہنے کے مترادف ہے۔ اس مفہوم کی ایک حدیثِ قدسی مستند اور معروف ہے۔ انسانوں سے نفرت کی بجائے خیر خواہی کے جذبات دل میں رکھیں۔ ضروری نہیں کہ جو ہم دوسروں کے لیے اچھا سمجھ رہے ہوں وہ واقعی ان کے حق میں بہتر ہو۔ اس لیےدوسروں کو نصیحت کرنے کا دائرہ کارحکمت کے ساتھ  امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نیّت، کوشش اور صریح شرک اور فحش کاموں سے روکنے تک  ہی محدود رکھیں۔

آج کل بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے کو ایکسیپٹ کرنا سیکھ جائیں۔ ہم اپنی عقل کے مطابق کسی کو جج نہ کریں۔ ہم کسی کو بہت پیار سے سمجھا سکتے ہیں مگر کسی کا دل بدل نہیں سکتے۔ کسی کا ظاہری نظر آنے والا گناہ ہمیں اس کی خیر خواہی اور اس کے لیے بہترین کامیابی یعنی کہ جنّت میں داخل کیے جانے کی خواہش سے روک نہ دے۔ دعوت و تبلیغ کے کام کا مؤثر ترین طریقہ خود اپنے عمل اور کردار کی مثال پیش کرنا ہے۔

جب ہم یہ جان لیں گے کہ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم اکیلے جنّت میں جائیں بلکہ ہماری خواہش یہ ہونی چاہیے کہ سب کے سب نیکوکار انسان جنّت میں ہمارے ساتھ ہوں۔ وہ جنّت جہاں ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کوئی بغض، کوئی نفرت، کوئی حسد کا جذبہ نہیں ہو گا۔اور وہ خواہشات جن کے پیچھے آج ہم ہلکان ہو رہے ہیں ان کا نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ اور آخرکار ہم اپنے رب کے چہرے کے دیدار اور اس سے ملاقات کے بعد کسی بھی طرح کے پست خیال کے بارے میں سوچ ہی کیسے سکیں گے؟ کہ جس ربّ کی تلاش اور اس سے ملاقات کے لیے ہم اس دنیا کے کٹھن سفر سے گزر رہے ہیں۔ کیا جنّت کی کوئی نعمت یا کوئی نفسانی خواہش یا لذّت بھی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے؟

طیبہ خلیل

بحرین

2 thoughts on “انسانوں سے محبّت کریں؛ان کے اعمال کی پڑتال اللہ پر چھوڑ دیں۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.